مرزائی

  سال تھا 1835 ہندوستان پنجاب کے ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے ایک پسماندہ گاؤں قادیان میں غلام مرتضیٰ نامی ایک شخص کے یہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام غلام احمد رکھا گیا یہ نام تو اچھا تھا مگر آنے والے وقتوں میں یہی نام فتنہ، تفرقہ اور گمراہی کی علامت بننے والا تھا آج تاریخ اسے ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے جانتی ہے مرزا غلام احمد قادیانی کون تھا اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیوں کیا قادیانیت اور مرزائیت میں کیا فرق ہے احمدی کون لوگ ہیں قادیانیوں اور لاہوری گروپ میں کیا فرق ہے قادیانیوں کے کتنے فرقے ہیں آج کی اس ویڈیو میں ہم ملعون و کذاب مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے دعوؤں اور عبرتناک موت کی مکمل داستان سنائیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ قادیانیوں نے کس طرح اپنے جھوٹے مذہب کا پرچار کیا اور ان لوگوں کی پہچان کیا ہے میں ہوں عادل جہانگیر ویلکم ٹو انفو ایٹ عادل غلام احمد قادیانی 1935 کو قادیان کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا اس کا والد غلام مرتضیٰ اور خاندان مغلیہ دور میں مقامی اشرافیہ میں شمار ہوتے تھے یہ خاندان مذہباً مسلمان تھا اور شروع میں مغل سلطنت کا وفادار رہا مگر برصغی...
!! میمونہ بیگم یکم مئی کی سرکاری چھٹی ہے کیا خیال ہے جمعہ کی اگر چھٹی لے لوں تو ہفتہ اتوار ملا کر چار چھٹیاں ہو جائیں گی ۔۔۔کہیں گھومنے چلیں ۔۔؟ آصف آپ کو پتہ ہے بجٹ نہ بھی ہو تو پہاڑوں پے جانا میری کمزوری ہے ۔۔ اسی لیے تو کہہ رہا ہوں ۔۔۔چار دن بڑا وقت ہے ۔۔ ناران بھی کھل گیا ہے ۔۔ میں ابو سے گاڑی مانگ لیتی ہوں ۔۔۔بہت مزہ آئیگا ۔۔ بلکہ بشریٰ آپا سے بھی کہتی ہوں ساتھ چلیں ۔۔۔ ہاں میمونہ یہ ٹھیک رہیگا ۔۔۔ اللہ نے ہمیں اولاد نہیں دی لیکن آپا کے بچوں میں مجھے اپنی اولاد نظر آتی ہے ۔۔۔ آصف اقبال کی اپنی بیگم سے ہلکی سی مشاورت کی دیر تھی کہ بیگم نے پلک جھپکتے میں سب پروگرام ترتیب دے لیا ۔۔۔ابو سے گاڑی مانگ لی ۔۔۔۔بشری آپا کے لیت ولعل پر آپا کے بچوں کو چابی دے دی ۔۔۔پھر کیسے ممکن تھا کہ آپا نہ کر پاتیں ۔۔۔بچوں نے ساتھ اپنی ایک اور خالہ کو بھی تیار کرلیا ۔۔۔ یکم مئی صبح آٹھ بجے سوزوکی آلٹو گاڑی میں آصف اقبال ،ان کی اہلیہ ،اہلیہ کی دو بہنیں اور چار بچے ۔۔۔جن کی عمریں ڈیڑھ سے دس سال کے درمیان تھیں ۔۔۔ناران کے لیے روانہ ہوئے ۔۔۔ آپا اگر وسیم بھائ بھی ساتھ ہوتے تو بہت مزہ آتا ۔۔ ہاں میمونہ میرا بھی بہت دل تھا لیکن گاڑی کی حالت دیکھو تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے ۔۔اٹھ لوگ اور پھر سامان ۔۔۔میری تو ایک ٹانگ ابھی سے سن ہوگئ ہے ۔۔۔ جب سے موٹر وے بنی ہے مانسہرہ کا راستہ کتنا کم ہوگیا ہے ۔۔ ویسے اگر آپ خواتین راضی ہوں تو ہم ناران کے بجائے خنجراب پاس بھی جاسکتے ہیں ۔۔۔ناران تو پہلے بھی کئی بار دیکھا ہے ۔۔۔۔آصف نے مانسہرہ انٹر چینج سے اترتے نیا منصوبہ پیش کیا ۔۔۔ منصوبے کا استقبال بھرپور پرجوش انداز سے کیا گیا اور گاڑی شاتے عبور کرتی ہؤئ تھاکوٹ کی جانب بڑھ گئ۔۔۔ درہ خنجراب جانے کی خوشی میں سب بہت پرجوش تھے ۔۔۔چھوٹی سی گاڑی میں چار بچوں اور تین خواتین کی موجودگی میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔۔۔ ایسے ہی شور شرابے میں بشام گزر گیا اور قریباً پونے بارہ کے قریب گاڑی کوہستان کے علاقے مٹہ بانڈہ پہنچ گئ ۔۔ تینوں بہنیں خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور بچے اپنی کلکاریوں میں ۔۔۔یکدم گاڑی سڑک پر ڈگمگانے لگی ۔۔۔آصف ۔۔۔۔آصف ۔۔۔۔ یا اللہ خیر ۔۔۔۔! اور گاڑی لڑھکتی ہوئ تیزی سے نیچے دریا کی جانب جانے لگی ۔۔۔لیکن اب کی بار گاڑی ٹائروں پر نہیں جارہی تھی بلکہ قلابازیاں کھاتی جارہی تھی ۔۔ بشری آپا نے ننھے کو بانہوں میں بھینچ لیا تھا ۔۔۔ بہنوں نے آخری بار ایک دوسرے پر نگاہ ڈالی اور آنکھیں موندھ لیں ۔۔۔۔ آصف ۔۔۔۔آصف ۔۔۔۔۔میمونہ۔۔۔۔اصف نے آہستگی سے آپنا ہاتھ فرنٹ سیٹ پر ساتھ بیٹھی اہلیہ کے ہاتھ پر رکھا ۔۔۔لیکن اگلے ہی لمحے چھوٹ گیا ۔۔۔۔ہمیشہ کیلیے ۔۔۔ پندرہ سالہ رفاقت کا خاتمہ لیکن ایک ساتھ ۔۔۔ گاڑی بالکل کچلی ہوئ حالت میں دریا کنارے کھڑی تھی ۔۔۔ اوپر سڑک پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہورہا تھا ۔۔۔ گاڑی میں سوار تمام مسافر عالم بالا کی جانب اڑے چلے جارہے تھے ۔۔۔ ماما ہم کہاں جا رہے ہیں ۔۔۔؟ ہم تو خنجراب جارہے تھے ۔۔۔ بیٹا ہمارا سفر ختم ہوچکا ہے ۔۔۔ ماما لوگ ہماری ٹوٹی ہوئ گاڑی میں سے کیا نکال کر لیجا رہے ہیں ۔۔ یہ حسرت زدہ اجسام ہیں بیٹا ۔۔۔انہیں تمھارے بابا اور نانا ابو کے حوالہ کردیں گے ۔۔۔ ماما کتنا اچھا ہوتا بابا بھی ہمارے ساتھ ہوتے ۔۔۔وہ پیچھے بالکل اکیلے ہو جائیں گے ۔۔ بیٹا جلد وہ ہم سے آ ملیں گے ۔۔۔ ماما ان سے کہنا میری گڑیا ساتھ لیتے آئیں ۔۔۔وہ میرے بغیر سوتی نہیں ہے ۔۔۔ ہاں بیٹا کہہ دوں گی ۔۔۔ یہی باتیں کرتے یہ آٹھوں معصوم روحیں آسمان کی وسعتوں میں کھو گئیں ۔۔۔ اور پھر چشم فلک نے راولپنڈی کے علاقہ لالہ زار میں آٹھ جنازے اکٹھے اٹھتے دیکھے ۔۔۔تین سگی بہنیں ،چار بچے اور آصف اقبال ۔۔۔۔۔ ہرسال شمالی علاقہ جات میں ایسے حادثات ہوتے ہیں اور اپنے پیچھے رنج والم کی داستان چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔ یہ بھی ایک ایسا ہی حادثہ تھا اس کی وجوہات کا علم نہیں ہوپائے گا کیونکہ گاڑی میں موجود تمام مسافر لقمہ اجل بن گئے ۔۔کوئ عینی شاہد نہیں ۔۔۔ لیکن گاڑی کی گنجائش سے زیادہ افراد کا گاڑی میں سفر کرنا ،وزن کی زیادتی اور آصف اقبال کی ناتجربہ کاری ۔۔۔کوئ بھی چیز حادثہ کا سبب ہوسکتی ہے ۔۔۔اصف اقبال اچھے ڈرائیور ہوسکتے ہیں لیکن مستقل گاڑی نہیں چلاتے تھے ۔۔۔سرکاری ادارہ میں ملازم تھے صبح گاڑی لیکر جاتی اور شام اتار جاتی ۔۔خود کی گاڑی رکھی بھی نہیں تھی ۔۔سسر کی گاڑی پر جارہے تھے ۔۔۔مطلب ڈرائیور کا اچھا ہونا لیکن کبھی کبھار گاڑی چلانا ۔۔۔اور پھر اچانک شاہراہ قراقرم پر گاڑی لیجانا ۔۔۔یہ اس حادثہ کی بڑی وجہ ہوسکتا ہے ۔۔یہ سڑک ایسی نہیں کہ کوئ پارٹ ٹائم ڈرائیور یہاں گاڑی بھگاتا چلا جائے ۔۔۔یہاں تو غلطی کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہوتی ۔۔۔ جن لوگوں نے شاہراہ ریشم پر سفر کیا ہے وہ جانتے ہیں سڑک پر کئی جگہ اچانک گڑھا اجاتا ہے ۔۔جہاں سے بڑی گاڑی تو نکل جاتی ہے ۔۔لیکن آلٹو جیسی چھوٹی گاڑی کا توازن بگڑ سکتا ہے ،ٹائر پھٹ سکتا ہے ،اینڈ کھل سکتے ہیں یا گوڈے نکل سکتے ہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔اور ممکن ہے ایسا ہی کچھ ہوا ہے ۔۔۔ بیوی کے لیے خاوند ،ماں کے لیے بیٹا ،بہنوں کے لیے بھائ اور بچوں کے لیے باپ ان کا سپر ہیرو ہوتا ہے ۔۔جو سب کچھ کرسکتا ہے ۔۔لیکن یاد رکھیں حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔۔۔اس لیے ان پہاڑی راستوں پر سپر ہیرو کے بجائے گاڑی چلانے کی ذمہ داری کسی تجربہ کار فرد کے سپرد کیجائے۔۔۔ذندگی کی حفاظت بھی فرض ہے احتیاط کریں ۔۔۔بہت احتیاط کریں جب آپ کے ساتھ آنیوالی نسئلوں کی امانت بھی موجود ہو ۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مرزائی

سپر مین

صدر صدام حسین