مرزائی
سال تھا
1835 ہندوستان پنجاب کے ضلع گورداسپور
کی تحصیل بٹالہ کے ایک پسماندہ گاؤں
قادیان میں غلام مرتضیٰ نامی ایک شخص
کے یہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام غلام
احمد رکھا
گیا یہ نام تو اچھا تھا مگر آنے والے
وقتوں میں یہی نام فتنہ، تفرقہ اور
گمراہی کی علامت بننے والا تھا آج تاریخ
اسے ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کے
نام سے جانتی ہے مرزا غلام احمد
قادیانی کون تھا اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ
کیوں کیا قادیانیت اور مرزائیت میں کیا
فرق ہے احمدی کون لوگ ہیں قادیانیوں اور
لاہوری گروپ میں کیا فرق ہے
قادیانیوں کے کتنے فرقے ہیں آج کی اس
ویڈیو میں ہم ملعون و کذاب مرزا غلام
احمد قادیانی کے جھوٹے دعوؤں اور عبرتناک
موت کی مکمل داستان سنائیں گے اور یہ بھی
بتائیں گے کہ قادیانیوں نے کس طرح اپنے
جھوٹے مذہب کا پرچار کیا اور ان لوگوں کی
پہچان کیا ہے میں ہوں عادل جہانگیر ویلکم
ٹو انفو ایٹ عادل
غلام احمد قادیانی 1935 کو قادیان کے
ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا اس کا والد
غلام مرتضیٰ اور خاندان مغلیہ دور میں
مقامی اشرافیہ میں شمار ہوتے تھے یہ
خاندان مذہباً مسلمان تھا اور شروع میں مغل
سلطنت کا وفادار رہا مگر برصغیر میں
انگریزوں کی آمد اور ان کے قبضے کے بعد یہ
خاندان اپنی وفاداری تبدیل کر کے
انگریزوں کے ساتھ جا ملا اور سکھوں کے
خلاف لڑائیوں میں انگریزوں کا معاون و
مددگار رہا یہی وجہ تھی کہ انگریز سرکار
کی مہربانیوں نے ان کے خاندان کو کچھ
زمینیں، حویلیاں اور ایک سماجی مقام عطا
کیا تھا غلام احمد کا بچپن عام بچوں سے
کچھ مختلف نہ تھا مگر ایک چیز شروع سے ہی
نمایاں تھی وہ یہ تھی کہ وہ ایک گوشہ نشین،
کمزور جسم کا اور اکثر بیمار رہنے والا
بچہ تھا جو حقیقت سے زیادہ خیالات اور
خوابوں میں جیتا تھا غلام احمد قادیانی
کی ابتدائی تعلیم قادیان میں ہی ہوئی اس کے
والد نے اسے عربی، فارسی اور اردو کی
تعلیم دلوائی مگر وہ کسی باقاعدہ مدرسے
سے فارغ التحصیل نہیں تھا والد نے طب کی
تعلیم دلوانے کی کوشش کی مگر یہ اس
میدان میں بھی ناکام رہا مذہب سے اس کی
دلچسپی محض مطالعہ کی حد تک تھی مگر
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مذہبی مباحثوں
میں الجھنے لگا اور نتیجہ یہ نکلا کہ
مرزا غلام احمد قادیانی نیم ملا
خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان بن گیا
مرزا غلام احمد قادیانی پر نوکری کا
بھوت سوار ہوا تو 25 سال کی عمر میں
سیالکوٹ آیا اور انگریزوں کی مہربانی سے
برطانوی حکومت کے تحت ایک عدالت میں
کلرک کی نوکری مل گئی مرزا غلام احمد
قادیانی نے مختار کا امتحان دیا مگر
اس میں بھی وہ ناکام رہا مختار کا
امتحان انگریز دور میں ایک ایسا امتحان
ہوتا تھا جو عدالت یا رجسٹری دفاتر میں
کام کرنے والے افراد یا قانونی نمائندوں
مثلاً وکیل یا وکالت نامہ رکھنے والے افراد
کے لیے لیا جاتا تھا جسے آج کے دور میں
وکالت نامہ یا وکیل مختار یا پاور آف
اٹارنی ہولڈر کہا جاتا ہے مرزا غلام
احمد قادیانی نے سیالکوٹ میں تقریباً 4
سال قیام کیا اور پھر نوکری چھوڑ کر واپس
قادیان چلا گیا قانون کے چند نکات سے
واقفیت تھی والد کے اثر و رسوخ پر وکیل بن
گیا اور دن بھر کچہریوں کی خاک چھانتا رہا
اور مرزا غلام احمد قادیانی اپنے
خاندانی مقدمات بھی ہارتا رہا شروع میں وہ
ایک عام مذہبی انسان کی طرح تحریریں لکھتا
اور اسلام کے دفاع میں دلائل دیتا بٹالہ اور
گرد و نواح میں بزرگان دین کے جاہ و جلال
کو دیکھ کر مرزا غلام احمد قادیانی کے
منہ میں بھی رال ٹپکنے لگی اور یہ پیری
مریدی کے خواب دیکھنے لگا اسی دوران اس کے
بچپن کے دوست اور ہم مکتب ابو سعید
محمد حسین بٹالوی دینی تعلیم مکمل
کرنے کے بعد بٹالہ واپس آئے تو خبر ملنے
پر مرزا غلام احمد قادیانی ان کی خدمت
میں حاضر ہوا اور غیر اسلامی ادیان کے
رد میں کتاب لکھنے کا مشورہ طلب کیا
مولوی محمد حسین نے کہا کہ یہ مبارک
خیال ہے کتاب کی اشاعت کے لیے پیسوں کا
مسئلہ درپیش تھا مگر مولوی صاحب نے لاہور
آنے کا مشورہ دے کر یہ مشکل بھی حل کر دی
یہی وہ زمانہ تھا جب پنڈت دیانند سرسوتی
نے اپنی ہنگامہ خیزیوں سے ملک میں مذہبی
فضا کو آلودہ کر دیا تھا اور اسلام کے
خلاف ہرزہ سرائی عروج پر تھی غلام احمد
قادیانی نے مولوی محمد حسین کے پاس
مسجد چینیاں لاہور میں رہائش اختیار
کی اور مختلف مذاہب کی کتابوں کا
مطالعہ کرنے لگا اسی دوران گاہے بگاہے
اس کے ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب و مسالک
کے لوگوں سے مباحثے بھی ہونے لگے اور اس نے
اپنے گرد مجمع اکٹھا کرنے کا ہنر بھی
سیکھ لیا اب مرزا غلام احمد قادیانی
نے ان بحث مباحثوں سے باہر نکل کر
الہام بازی کی دنیا میں قدم رکھا اور
ملہم و مستجاب ہونے کا پروپیگنڈا شروع
کر دیا شہرت تو پہلے سے تھی ہی اب اہل
حاجات کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی بڑھ گیا
لالہ شرم پت رائے اور لالہ ملا وامل یہ
دو ہندو اس کے مشیر خاص اور خوشامدیوں
میں شامل تھے جو اس کی مدح سرائی بھی کرتے تھے
اور ایک کثیر تعداد اس کے پاس آتی تھی جو
مرزا کے حلقہ احباب میں شامل ہو گئی
پھر 1880 میں مرزا نے براہین احمدیہ
کے نام سے ایک کتاب لکھ ڈالی جو
مرزائیوں کے نزدیک مرزا غلام احمد
قادیانی کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے
یہ تقریباً 364 صفحات پر مشتمل کتاب ہے
جس کے جواب میں مرزا قادیانی نے غیر
مسلموں کے لیے 100 روپے کا انعام مقرر کیا
تھا اس اعلان پر مسلمانوں کو یقین ہو گیا
تھا کہ مرزا اسلام کی تائید میں غیر
مسلموں کو منہ توڑ جواب دے گا اور براہین
احمدیہ میں مرزا قادیانی نے ایسا لب و
لہجہ اختیار کیا کہ آریوں اور عیسائیوں
کے دلوں میں بھی اسلام کے خلاف نفرت اور
عناد میں اضافہ ہو گیا پنڈت لیکھ رام نے
تکذیب براہین احمدیہ کے نام سے جواب
شائع کیا جو دشنام طرازی، گالم گلوچ اور
بدگوئی میں اپنی مثال آپ تھی اس بدبخت نے
انبیاء و رسل کی اس قدر توہین کی کہ شاید
پہلے ایسا نہ ہوا ہو اور اس سب کا سبب اور
ذمہ دار تھا مرزا غلام احمد قادیانی
مگر مرزا اور اس کے حواریوں کے نزدیک
براہین احمدیہ کامیاب ترین کتاب رہی
اسی دوران امرتسر میں مرزا غلام احمد
قادیانی کے دوست حکیم محمد شریف نے
اس کو مجدد ہونے کا دعویٰ کرنے کا مشورہ
دیا چنانچہ مرزا غلام احمد نے
مجددیت کا ڈھنڈورا بھی پیٹنا شروع کر دیا
اور دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں
لٹریچر بھجوانے شروع کر دیے مگر مرزا
کی تجدید کے اثر کا کمال یہ ہوا کہ 20,000
دعوتی اشتہار کی ترسیل کے باوجود ایک بھی
غیر مسلم اس کا ہمنوا نہ بنا اس وقت
علماء لدھیانہ میں ممتاز حیثیت کے
حامل مولوی محمد، مولوی عبداللہ اور
مولوی اسماعیل ان تینوں حقیقی بھائیوں نے
کہیں سے کتاب براہین احمدیہ حاصل
کر کے اس کا مطالعہ کیا تو اس میں ان کو
الحاد نظر آیا تو انہوں نے شہر میں اعلان
کر دیا کہ یہ شخص مجدد نہیں بلکہ
ملحد و زندیق ہے اور مرزا کی تکفیر کا
فتویٰ جاری کر دیا تھوڑے ہی دنوں بعد
علماء حرمین شریفین کی طرف سے بھی مرزا
غلام احمد قادیانی کے کفر کے فتوے
ہندوستان پہنچ گئے جب تکفیری فتووں کے
بعد مرزا قادیانی کی سرگرمیاں
متاثر ہونے لگیں تو اس نے مسیح ہونے کے
اعلان کی منصوبہ بندی شروع کر دی سب سے پہلے
اس نے جناب حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام
کی حیات اور آپ کی آمد ثانی کا انکار کیا
حالانکہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 498 میں
پہلے ہی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور
آمد ثانی کا اقرار کر چکا تھا پھر اس بدبخت
نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ میں
مسیح موعود ہوں اور میں عیسیٰ ابن مریم ہوں
علماء حق کی جانب سے اس کے اس دعوے کی بھی
بھرپور نفی کی گئی مگر پادریوں کی جانب سے
خاموشی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور آخر کار
اس نے 1890 میں یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ احادیث
میں جس مسیح کے آنے کی پیش گوئی کی گئی
تھی وہ میں ہی ہوں نعوذ باللہ جب ہر طرف سے
معجزات مسیح میں سے کوئی بھی ایک معجزہ
دکھانے کے مطالبات بڑھنے لگے تو اس کذاب و
ملعون نے معجزات مسیح کا سرے سے ہی انکار
کر دیا اور 1892 میں اس نے امام مہدی
ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا نعوذ باللہ مرزا
کے جھوٹ پر جھوٹ اور دین اسلام کا حلیہ
بگاڑنے پر اس کے محسن و مربی مولوی
محمد حسین سمیت کئی لوگوں نے اس کا ساتھ
چھوڑ دیا اور اس کے جھوٹے دعوؤں کے پول
کھلنے لگے اور اسی دوران حضرت پیر مہر علی
شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مرزا غلام احمد
قادیانی کی ایسی خبر لی کہ اس کے 14 طبق
روشن ہو گئے جب مرزا نے محسوس کیا کہ اب
بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو مناظرے کی
دعوت دے دی چنانچہ 25 اگست سال 1900 کا
دن طے پایا کہ شاہی مسجد لاہور میں یہ
مناظرہ ہوگا جب بے حد مصروفیت کے باوجود
حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
مناظرے کے لیے 24 اگست سن 1900 کو
بذریعہ ریل گاڑی لاہور پہنچے تو مرزا
غلام احمد قادیانی بھاگ گیا اور
پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ پیر صاحب خود
تشریف نہیں لائے اسی طرح سال 1901 میں
مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے
ظلی اور بروزی اور غیر تشریعی نبی اور پھر
اصلی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا نعوذ باللہ
اور پھر دنیا میں جھوٹے، مکار اور لعنتی
مذہب قادیانیت کا آغاز ہوا مرزا نے 10
شرائط پر مدنی بیعت کا نظام قائم کیا
مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جماعت سے
چندہ لینے کے باقاعدہ اصول متعارف کروائے
اس نے وصیت کا نظام بنایا جس میں پیروکار
اپنی جائیداد کا ایک حصہ جماعت احمدیہ یا
جماعت قادیانیت کے نام وقف کرتے تھے اسے
انگریز سرکار کی حمایت حاصل تھی چنانچہ
جماعت مالی لحاظ سے جلد مستحکم ہو گئی
مرزا نے اپنی زندگی میں 80 سے زائد
کتابیں لکھیں ان کتابوں میں وہ اپنے دعویٰ
نبوت کی وضاحتیں دیتا رہا دوسروں کو
کافر، جھوٹا اور جہنمی کہتا ہے اور خود کو
اللہ کا برگزیدہ، معصوم اور افضل قرار
دیتا ہے مرزا غلام احمد قادیانی کی
تحریریں اور بیانات انگریز سرکار کی بھرپور
وفاداری پر مبنی تھیں وہ جہاد کو حرام قرار
دیتا اور مسلمانوں کو انگریز حکومت کی
اطاعت کا درس دیتا اس نے لکھا میں نے
بار بار اپنی جماعت کو حکم دیا ہے کہ وہ
انگریز حکومت کے مطیع رہے مرزا کے اس
تزکیہ فکر کے بدلے انگریز حکومت نے اسے
تحفظ دیا اور قادیانی تحریک کو پھیلنے کا
موقع ملا 29 مئی 1908 کو ملعون مرزا غلام
احمد قادیانی اچانک قہر خداوندی کا
شکار ہوا اور ہیضہ کی بیماری میں مبتلا
ہو کر لاہور میں باتھ روم کے اندر انتہائی
ذلت و رسوائی کی موت ہلاک ہو گیا مرزا
غلام احمد قادیانی نے متعدد مناظرے کیے
اور مخالفین کے خلاف جھوٹی پیش گوئیاں کیں
اس نے کئی افراد کے جلد مرنے کی پیش گوئیاں
کیں مگر بارہا وہ خود ذلیل اور اس کی پیش گوئی
جھوٹی ثابت ہوئی مرزا نے عیسائی مبلغ
عبداللہ آثم سے مباہلہ کیا اور کہا اگر
یہ جھوٹا ہے تو 15 ماہ کے اندر اندر مر
جائے گا مگر 15 ماہ گزرنے کے بعد بھی آثم
زندہ رہا مرزا نے اپنی بیوی سے ایک بیٹے
کی ولادت کی پیش گوئی کی اور کہا کہ یہ ایک
عظیم بیٹا ہوگا جو دین کا خادم ہوگا جس
بیٹے کی پیش گوئی کی وہ بیٹا پیدا ہونے کے
جلد ہی چند دنوں بعد مر گیا مرزا نے ہندو
مبلغ لیکھ رام کے بارے میں لکھا کہ وہ چھ
سال کے اندر اندر عبرتناک موت مرے گا
لیکھ رام واقعی مر گیا لیکن شکوک پائے گئے کہ
یہ قادیانی جماعت کی طرف سے ہوا اور مرزا
کے حواریوں نے اسے اس مرزا کی پیش گوئی
کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قتل کر دیا
مرزا غلام احمد قادیانی نے بار بار
کہا کہ میری جماعت دنیا میں غالب آ
جائے گی تمام مسلمان قادیانیت قبول
کریں گے مگر 100 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے
کے بعد بھی مسلمانان عالم کا متفقہ
موقف ہے کہ قادیانیت دائرہ اسلام سے
خارج ہے اور قادیانی آج بھی اپنی شناخت
چھپائے پھرتے ہیں ڈاکٹر عبدالحکیم
مرزا کے عقائد کے شدید مخالف تھے
مرزا نے کہا عبدالحکیم میری زندگی
میں مر جائے گا مگر ڈاکٹر عبدالحکیم نے
اس کی زندگی میں کئی بار اس کا رد کیا اور
وہ زندہ رہے مگر مرزا خود جہنم
واصل ہو گیا مرزا غلام احمد قادیانی
کی عبرتناک موت کے بعد قادیانیوں کے دو
بڑے فرقے اس وقت وجود میں آئے جب مرزا
غلام احمد قادیانی کی وفات کے بعد جماعت
احمدیہ میں قیادت کے سلسلے میں اختلاف
پیدا ہوا یہ اختلاف 1914 میں شدت
اختیار کر گیا اور اس کے نتیجے میں جماعت
احمدیہ کے دو بڑے گروپس بن گئے ایک کو
جماعت احمدیہ قادیان اور دوسرے فرقے کو
لاہوری جماعت احمدیہ یا لاہوری گروپ کہا
جاتا ہے قادیانی وہ گروہ ہے جو مرزا
بشیر الدین محمود احمد، مرزا غلام احمد
کے بیٹے کی قیادت کو مانتا ہے اس گروہ کا
مرکز قادیان، ضلع گورداسپور، انڈیا میں
رہا لیکن 1947 میں پاکستان بننے کے بعد
یہ گروہ ربوہ، ضلع جھنگ، پنجاب، پاکستان
میں منتقل ہو گیا یہ فرقہ مرزا غلام
احمد قادیانی کو نبی یا ظلی نبی مانتا
ہے جو عقائد میں دیگر مسلمانوں سے سخت
اختلاف کا سبب ہے لاہوری جماعت احمدیہ کی
بنیاد 1914 میں مولوی محمد علی نے
لاہور میں رکھی یہ گروہ مرزا غلام احمد
قادیانی کو مجدد اور مسیح موعود تو مانتا
ہے مگر نبی نہیں مانتا ان کے مطابق
مرزا غلام احمد قادیانی ظلی یا
بروزی نبی نہیں بلکہ صرف ایک مصلح اور
مجدد تھے اس فرقے کا مرکز لاہور میں ہے
اور اسے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور
یا لاہوری گروپ کہا جاتا ہے یہ گروہ خود
کو مسلمان ہی کہتا ہے اور قادیانی فرقے
سے نظریاتی فاصلہ رکھتا ہے قادیانیوں کے
دوسرے امام اور مرزا غلام احمد قادیانی
کے ناجائز بیٹے بشیر الدین نے 1910 میں
قادیانیوں کے دوسرے مختصر گروہ
لاہوری گروپ کے خلاف حقیقت النبوۃ کے
نام سے ایک کتاب لکھی جس کے 50 صفحات صرف
اس لیے کالے کیے گئے کہ مرزا غلام احمد
قادیانی اس قسم کے نبی تھے جس قسم کے
نبی پہلے آتے رہے اور اگلے نبیوں کے نہ
ماننے والے جس طرح کافر ہیں اور نجات کے
مستحق نہیں اسی طرح مرزا غلام احمد
قادیانی ملعون کے نہ ماننے والے بھی سارے
مسلمان نہیں کافر ہیں اور نجات سے
محروم رہنے والے ہیں اس کتاب میں نبوت
پر 30 دلیلیں لکھی گئیں ان میں سے ایک دلیل یہ
بھی تھی کہ مرزا نے اپنے آپ کو خود نبی اور
رسول کہا ہے مرزا غلام احمد قادیانی
نے اپنے دعویٰ نبوت کے ساتھ ساتھ کچھ خدائی
الہامات بھی گھڑے ہیں اس کے بیٹے بشیر الدین
محمود نے ان الہامات کو بھی اپنے باپ کی
نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ان
من گھڑت الہامات میں سے چند یہ ہیں کہ ہم نے
مرزا غلام احمد قادیانی کو ایک قوم کے
پاس بھیجا تو اس نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ
انتہائی جھوٹا اور بہت شریر ہے میں رسول کے
ساتھ قائم ہوں اور ملامت کرنے والوں کو
ملامت کرتا ہوں میں نے نیند میں خود کو
ہو بہو اللہ دیکھا اور مجھے یقین ہو گیا کہ
میں وہی اللہ ہوں نعوذ باللہ من ذالک
کتاب آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ نمبر 564
پر از مرزا یہ بات لکھی ہوئی ہے اسی طرح
مرزا غلام احمد قادیانی بدبخت کذاب نے
خدا کا بیٹا ہونے کا بھی دعویٰ کیا اس کے
علاوہ کرشن اوتار اور درجنوں جھوٹے دعوے
کیے گئے اور آج بھی اس کے پیروکار آٹھ بڑے
فرقے بنا کر دنیا بھر میں اس کی تعلیم عام
کرنے اور ارتدادی سرگرمیوں میں
مصروف کار ہیں اور مسلمان نوجوانوں کو
گمراہ کر رہے ہیں ان کے آٹھ بڑے فرقے کون
سے ہیں جن سے بچنا انتہائی ضروری ہے جو
مختلف شکلوں میں مختلف لبادے
اوڑھ کر مسلمان نوجوانوں کو گمراہ کر رہے
ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی کی
گندی نبوت کے دعوے آج بھی پوری دنیا میں
پھیلا رہے ہیں نمبر ایک سبز احمدیت اس کا
بانی اور سربراہ مرزا رفیع احمد ہے نمبر دو
احمدیت اس کا بانی اور سربراہ مرزا مسرور
احمد ہے یہ لاٹھی قادیانیوں کا موجودہ
خلیفہ بنا ہوا ہے اور اس کے تانے بانے
مرزا غلام احمد قادیانی سے ملتے ہیں
اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں
مرزائیت کا سب سے بڑا پرچار کرنے والا یہی
لعنتی ہے نمبر تین اصلاح پسند اس کا بانی
اور سربراہ لعن عبد الغفار چمبا ہے نمبر
چار لاہوری گروپ بانی اور سربراہ محمد
علی نمبر پانچ صحیح الاسلام بانی اور
سربراہ منیر عظیم نمبر چھ المسلمین
بانی اور سربراہ ظفر اللہ ڈومن نمبر سات
حقیقی بانی اور سربراہ ناصر سلطانی اور
نمبر آٹھ انوار الاسلام بانی اور سربراہ
الحاجی جبریل یہ تمام فرقے احمدیت کا
پرچار پوری دنیا میں اپنے اپنے طریقے
سے کر رہے ہیں ان کے درمیان کچھ اختلافات
ضرور ہیں مگر یہ سب انتہائی لعین اور زندیق
ہیں جو پوری دنیا کے اندر جھوٹے نبی
مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے
دعوے کو پھیلا رہے ہیں اور مسلمانوں کو
گمراہ کر کے نوجوان نسل کو تباہ کر رہے
ہیں ان سب سے بچنا انتہائی ضروری ہے اللہ
رب العزت کے حضور دعا ہے کہ وہ
مسلمانوں کو عقل سلیم کے ساتھ ان جھوٹے
مدعیان نبوت کی شر انگیزیوں سے محفوظ
رکھے یہ تمام تحقیق اور اس ویڈیو کا مقصد
عالم اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو
ان جھوٹے نبیوں کی کاستانیوں اور ان کے
عبرتناک انجام سے آگاہ کرنا مقصود ہے
خاتم الانبیاء سید المرسلین امام الانبیاء
جناب سیدنا محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات
مبارکہ میں جھوٹے مدعیان نبوت کے قتل
اور انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے
احکامات جاری کیے حضرت سیدنا صدیق
اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور
خلافت میں ترجیحی بنیادوں پر ان بدبختوں
کا قلع قمع کیا آپ کے بعد بھی ہر دور میں اس
طرح کے لوگ سامنے آئے اور انجام بد سے دوچار
ہوئے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ
دو تین صدیوں کے دوران عالم اسلام کی
جانب سے ان جھوٹے نبیوں کے خلاف حکومتی
سطح پر کوئی واضح اقدامات نظر نہیں آئے مرزا
غلام احمد قادیانی کا اثر و رسوخ اس
وقت دنیا بھر کے کم سے کم آٹھ ممالک میں
مضبوط تر ہے بالخصوص جنوبی ایشیا، بھارت اور
پاکستان کے مسلمان مرزا غلام احمد
قادیانی کے مرتد مریدوں کے نشانہ پر
ہیں پاکستان میں 1974 میں ذوالفقار علی
بھٹو کے دور حکومت میں ایک عظیم الشان
عوامی اور دینی تحریک کے بعد قادیانیوں
کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار
دیا گیا اور ان کو دائرہ اسلام سے خارج
کر دیا گیا اس آئینی ترمیم کے مطابق جو
شخص خاتم النبیین امام الانبیاء جناب
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں
کرتا یا مرزا غلام احمد قادیانی لعین
کو نبی یا مجدد مانتا ہے وہ مسلمان
نہیں بلکہ غیر مسلم ہے قادیانیوں کا
اذان دینا، عبادت گاہ کو مسجد کہنا، عبادت
کو نماز کہنا غیر قانونی قرار دیا گیا
خلاف ورزی پر قادیانیوں کو قید یا
جرمانہ ہو سکتا ہے مگر آج بھی پاکستان
میں حکومتی راہداریوں میں گھسے یہ
قادیانی کچھ ضمیر فروش سیاستدانوں اور
اعلیٰ عہدوں پر فائز بیوروکریٹس اور ریاستی
اداروں میں اعلیٰ افسران کی حیثیت سے ہر
موقع پر دین اسلام میں نقب لگانے کی
کوشش کر رہے ہیں اور بعض ایسے مسلمان بھی
ہیں جو انہیں اپنے بہن بھائی قرار دیتے ہیں
جن کے بارے میں عمومی طور پر مسلمانان
پاکستان میں اچھا تاثر پایا جاتا ہے
قادیانیوں کے ساتھ میل ملاپ کرنا یا
اٹھنا بیٹھنا اسلام میں قطعی طور پر ناجائز
اور حرام ہے آج دنیا بھر میں عقیدہ ختم
نبوت کی حفاظت کرنے والے علماء کرام
ادارے اور تحریک قادیانیت کے خلاف
جدوجہد میں مصروف ہیں ضرورت اس امر کی
ہے کہ دین اسلام کے پاک وجود اور عقیدہ
ختم نبوت کی حرمت کے لیے ان شیطانوں اور
کذابوں کا قلع قمع کیا جائے اور خاتم الانبیاء
سید المرسلین امام الانبیاء
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی سنتوں و احکامات کی پیروی
کرتے ہوئے سخت فیصلے کیے جائیں مرزا غلام
احمد قادیانی کی کہانی ایک جھوٹ، غرور،
خود فریبی اور انگریز پرستی کی عبرتناک
داستان ہے وہ جو نبی بننے چلا تھا ایک ایسی
عبرتناک موت سے دوچار ہوا جو اس کے جھوٹے
دعوؤں کی سچائی کھول گئی یہ داستان ہمیں
بتاتی ہے جو شخص حضور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت
کو چیلنج کرے گا اس کا انجام دنیا اور
آخرت میں رسوائی ہوگا اللہ تعالیٰ ہمیں
حق پر قائم رکھے عقیدہ ختم نبوت پر پہرہ
دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور ہر
باطل فتنے سے محفوظ فرمائے آمین یا
رب العالمین ملتے ہیں بہت جلد ایک نئی
تحقیقی اور معلومات کے ساتھ اللہ
رب العزت آپ کا حامی و ناصر ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں