سپر مین
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ڈی سی یونیورس کے مشہور کردار سپر مین کی نئی فلم نے دنیا میں بحث چھیڑ دی ہے۔ سوشل میڈیا پر بیشتر لوگ اسے اب تک کی سب سے زیادہ اسرائیل مخالف فلم قرار دے رہے ہیں۔ دی سپر مین فلم ڈائریکٹڈ بائے جیمز گن ہیز بکم این ان ایکسپیکٹڈ فوکل پوائنٹ آف ڈیبیٹ وتھ ویورز کلیشنگ اوور دی پرسیوڈ پولیٹیکل سبٹیکس ریلیٹڈ ٹو دی کانفلکٹ۔ ناؤ سم اینٹی اسرائیل فینز آر پورٹلی ایمبریسنگ دی مووی ایز اے میٹا فوریکل کمنٹری آن دی سچویشن آف دی پیلستینینز ان دی غزا سٹرپ۔ ہالی ووڈ کی ایک نئی فلم سپر مین نے اسرائیل کو نہ صرف پریشان کر رکھا ہے بلکہ اس کی نیندیں بھی اڑا دی ہیں۔ اس وقت اسرائیل کے لوگ اور یہاں کی حکومت اس کو دیکھ کر بہت غصے میں ہے اور ایسا اس لیے کہ یہ فلم اسرائیل کے غزا میں کیے جانے والے ظلم اور بربریت کو ان ڈائریکٹلی پوری دنیا کے اندر ایک سپر ہیرو فلم کی صورت میں دکھا رہی ہے۔ اب آپ سوچیں گے کہ کیا کہا کہ ہالی ووڈ کی فلم اور وہ بھی سپر مین جیسے فکشنل سپر ہیرو کی جس کے کریئیٹر ہی دو جوز تھے اور اس فلم کے اندر پوری دنیا کے سامنے اسرائیل کو ایکسپوز کیا گیا ہے۔ یہ کیسے پوسیبل ہے؟ جی ہاں، یہ پوسیبل ہو چکا ہے۔ آئیے ذرا اس کو ڈیٹیل میں سمجھتے ہیں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر کا نام ہے جیمز گن اور یہ فلم ڈی سی کے لیے بہت ہی اہم تھی۔ ڈی سی آپ کو بتاتا چلوں کہ مارول کے جیسا ایک مشہور امریکن سٹوڈیو ہے جو کہ مارول کی ہی طرح کے اپنے فکشنل سپر ہیروز رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر سپر مین، فلیش، بلیک ایڈم، ایکوامین، ونڈر وومن یہ سب کے سب ڈی سی یونیورس کے ہیروز ہیں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ سپر مین فرنچائز بہت ہی سٹرگل کر رہی ہے پچھلی کئی دہائیوں سے اور اس کی تمام موویز کوئی خاص بزنس نہیں کر پائی۔ لاسٹ ٹائم 2013 کے اندر مین آف سٹیل کے نام سے ڈائریکٹر زیک سنائیڈر نے اس کریکٹر کو اگین تھوڑا سا زندہ کیا۔ لیکن اسی سال 2025 کے اندر جیمز گن نے دوبارہ سے اس کلاسیکل سپر مین کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ مین آف سٹیل کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اوور پاورڈ ہے یا پھر حد سے زیادہ پاور فل دکھایا گیا ہے۔ سو ڈی سی کے لیے حالیہ سپر مین کی یہ فلم اس کے کریکٹر کے لیے یا پھر اس کا فیوچر ڈیسائیڈ کرنے کے لیے بہت ہی اہم تھی اور اس فلم کا بزنس دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جیمز گن اس کے اندر کافی حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔ اس فلم کو 200 ملین ڈالر کے اندر بنایا گیا اور اس نے اب تک پہلے ہی ہفتے کے اندر 122 ملین کما بھی لیے ہیں۔ یعنی پہلے ہی ہفتے کے اندر اس نے مین آف سٹیل سے بھی زیادہ بزنس کیا ہے۔ اب یہ تمام کنٹروورسی ہے کیا؟ دراصل ہوا کچھ یوں کہ اس فلم کے اندر سپر مین ہیرو کی ہی طرح کی ایک فکشنل دنیا دکھائی گئی ہے جس کے اندر دو فرضی ناموں والے ملک کی کہانی دکھائی گئی ہے۔ یعنی وہ ملک حقیقت کے اندر اس دنیا میں ایگزسٹ نہیں کرتے۔ پہلے ملک کا نام ہے بوریویا جو کہ خاص طور پر ایئر فورس کے اندر بہت ہی ایڈوانس ہے اور ٹیکنالوجی کے اندر ایڈوانس ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی ایگریسو نیچر کا ہے۔ یعنی ہر وقت اپنے آس پاس کے ملکوں پر حملے اور جنگ کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اور اس کا ساتھ اور کوئی نہیں بلکہ امریکہ جیسا طاقتور ملک ہمیشہ دیتا ہے۔ اور اسی طاقت کے نشے کے اندر بوریویا اپنے سے ایک چھوٹے ملک پر پسماندہ ملک پر حملہ کر دیتا ہے جس کا نام ہے زارنپور اور اس پر زبردستی قبضہ کر لیتا ہے۔ اب یہ ملک کیونکہ بہت ہی چھوٹا اور کمزور ملک ہے اور اس ملک کے پاس کوئی خاص جنگی ہتھیار بھی نہیں ہے تو اس جنگ کے اندر لاکھوں بے گناہ زارنپور کے اندر مارے جاتے ہیں۔ یعنی فلم کی کہانی کے مطابق زارنپور کے لوگ بہت ہی مظلوم ہوتے ہیں جن پر طاقتور ظلم کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک سپر ہیرو کی ہی طرح زارنپور کے لوگوں کے سپر مین نہ صرف مدد کرتا ہے بلکہ عالمی طور پر بھی ان کا ساتھ دیتا ہے۔ اور دراصل یہی کہانی اسرائیل کو اصل دنیا کے اندر اسرائیل یعنی طاقتور ملک یا پھر بوریویا اور کمزور ملک اس کہانی کے مطابق غزا یا پھر فلسطین محسوس ہو رہا ہے۔ یعنی چور کی داڑھی میں تنکا۔ اب یہاں پر مجھے ایک بہت ہی اچھا جوک یاد آیا سچویشن کو لے کر کے کہ ایک شخص تقریر کے اندر کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ حکومت چور ہے۔ حکومت کرپٹ ہے۔ اگلے دن اس بیچارے کو پولیس اٹھا کر لے جاتی ہے کہ تم نے حکومت کے خلاف بات کی ہے۔ اب وہ بندہ اپنی صفائی کے اندر کہتا ہے کہ میں نے تو صرف حکومت کا نام لیا تھا۔ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ ہمارے ملک کی حکومت چور ہے، امریکہ کی چور ہے یا پھر انڈیا یا پاکستان کی حکومت چور ہے۔ تو پولیس والا آگے سے ہنس کے کہتا ہے کہ کیا تم ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو؟ ہمیں نہیں پتا کہ کس ملک کی حکومت چور ہے۔ سیم یہی حال اس وقت اسرائیل کا بھی ہو رہا ہے کہ اس فلم کی کہانی اس کو بالکل اپنے اعمال نامے کی طرح محسوس ہو رہی ہے اور اسرائیل اور اس کے حامی لوگ خود شور مچا کر یہ ایڈمٹ کر رہے ہیں کہ ہم لوگ اس فلم کے اندر دکھائے گئے بوریویا کو اسرائیل اور مظلوم کو یعنی زارنپور کے لوگوں کو غزا مان رہے ہیں۔ پر اس کو دنیا کو دکھانا نہیں چاہیے تھا۔ مزید سمیلیریٹیز کی بات کریں تو فلم کے اندر زارنپور کی عوام کو ریزسٹنس کے طور پر یا پھر بغاوت کے طور پر دکھایا گیا ہے جن کو سپر مین مظلوم سمجھ کر ان کی مدد کرتا ہے اور کسی بڑی طاقت کا ساتھ دینے کی بجائے کمزور کو یعنی زارنپور کے شہریوں کی حفاظت کرتا ہے اور ان کو ظالم سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ فلم کے اندر اس کو باقاعدہ طور پر ظالم اور مظلوم کے دوران ایک جنگ کو روکنے والا ہیرو دکھایا گیا ہے۔ اور یہی چیز اسرائیلیوں کو اور ان کے حمایتیوں کو پرو فلسطینی محسوس ہوئی ہے۔ فلم میں بار بار مہاجرین، مظلوم شہریوں اور ان کی نسل کشی کا ذکر ہوتا ہے۔ سیم وہی حالات جو کہ غزا کے اس وقت ہیں۔ ایک سین کے اندر سپر مین زارنپور کے لوگوں کے لیے کہتا ہے کہ ہم اس طرح سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے نہیں بیٹھ سکتے کہ ظالم قتل کر کے ان مظلوموں پر حملہ کرتا رہے اور ان کی نسل کو ختم کر دے۔ اور یہ الفاظ اسرائیل کے دل پر چوٹ کی طرح لگے ہیں کہ صرف اسے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو یہ فلم باقاعدہ طور پر آئینہ دکھا رہی ہے۔ اب آپ کو بتاتا چلوں کہ شور شرابے اور احتجاج کے اندر بھی خیر ہی نکلی ہے کیونکہ جن لوگوں کو پہلے اس فلم کے بارے میں نہیں پتا تھا وہ بھی اس فلم کو اب اسی انداز سے دیکھیں گے اور اسرائیل کے خلاف مزید نفرت پوری دنیا کے اندر بڑھے گی اور آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کے سپر ہیروز کی کہانیاں صرف کچھ دن، کچھ مہینے، کچھ سال نہیں بلکہ کئی دہائیوں تک ان کی کہانی دیکھنے والوں کے مائنڈ میں رہتی ہے۔ فلم کے اندر سپر مین کو انسانی ہمدردی، انصاف اور غیر جانبداری کی علامت دکھایا گیا ہے۔ پیپل آر گونگ ٹو ڈائی۔
اور اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ بوریویا کی فضائی بمباری کی وجہ سے گھروں کی تباہی ہوتی ہے۔ ہسپتال تباہ ہوتے ہیں اور سکولوں پر حملے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی مارا جاتا ہے۔ اس طرح کے ایموشنل سین موجود ہیں کہ بارڈر پر کھڑی بھوکی ترستی ہوئی عوام جو کہ پوری دنیا کی مدد کی منتظر ہے اور ان کو دیکھ کر کوئی بھی شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کے حالات اور غزا کے حالات بالکل ایک جیسے لگتے ہیں۔ فلم کے اندر زارنپور کی عوام کو شدت پسند نہیں بلکہ امن پسند دکھایا گیا ہے جو کہ صرف اپنے حقوق چاہتے ہیں اور بے گناہ شہری ہیں۔ فلم کے ریلیز سے پہلے اس فلم کے شروع میں مصر کے معروف سٹینڈ اپ کامیڈین وسیم یوسف کا ایک سین موجود تھا جو کہ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ بعد میں اس سین کو فلم سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اب لوگوں کا اس پر کہنا تھا کہ شاید اسرائیلی لابی کے دباؤ کی وجہ سے ایسا ہوا لیکن جیمز گن نے کہا کہ یہ سین فلم کی کہانی کے ساتھ میچ نہیں کر رہا تھا۔ تبھی اس کو ہٹا دیا گیا ہے۔ جبکہ اگر فلم کی کہانی کے بارے میں جیمز گن اور ڈی سی کے آفیشل سٹیٹمنٹ کی بات کریں تو ان کا کہنا تھا کہ اس فلم کی کہانی مڈل ایسٹ یا اسرائیل فلسطین تنازعے کے بارے میں بالکل نہیں ہے بلکہ ایک فکشنل دنیا کے گرد گھومتی ہے اور اس فلم کی کہانی 2023 کے اندر لکھی گئی تھی جس وقت موجودہ اسرائیل اور غزا کی جنگ کی شروعات ہی نہیں ہوئی تھی اور جب 3 سال کے بعد یہ فلم بن کر ریڈی ہوئی تو لوگوں نے خود سے اس کا لنک غزا اسرائیل تنازعے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ حالانکہ یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ پر دوستو مجھے ایسا نہیں لگتا کیونکہ میرے خیال کے مطابق جیمز گن نے سوچ سمجھ کر ایبسٹریکٹ معنوں کے اندر اپنے دل کی آواز دنیا تک پہنچائی ہے۔ جتنا وہ اپنے ملک امریکہ کے اندر رہ کر کر سکتا تھا اس نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے مذہب ایک ہونا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ انسانیت اور اس کا درد ضروری ہے۔ اور میں ایسا بلا وجہ بھی نہیں کہہ رہا کیونکہ ذرا آپ غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ زارنپور کے لوگ دراصل براؤن سکین کے ہیں۔ جیسے غزا اور فلسطین کے اندر رہنے والے لوگ ہیں۔ جبکہ بوریویا کو ایک مشرقی یورپی ملک کے طور پر دکھایا گیا ہے یعنی وائٹ سکن کے لوگوں کا ملک جو کہ ظاہر سی بات ہے کہ اسرائیلی ہو سکتا ہے۔ اور جب فلم کے اندر سپر مین بوریویا کو زارنپور کے لوگوں کو مارنے سے روکتا ہے۔ نہتے شہریوں پر ظلم کرنے سے روکتا ہے تو بوریویا کہتا ہے کہ یہ لوگ تو ویسے مرنے والے تھے ہم لوگ تو دراصل ان کے دہشت گردوں سے ان کو بچا کر ان کو آزادی دے رہے ہیں۔ آئی مین سیم وہی الفاظ جو کہ اسرائیل غزا کے اندر تباہی کے بعد جواز کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اور مزید اسی فلم کے اندر بوریویا کی امریکن حکومت کے ساتھ نیتن یاہو جیسی گہری دوستی بھی دکھائی گئی ہے۔ اور یہ منظر دراصل فلسطین اور اسرائیل کا ہی ہے۔ اب اس فلم کی کہانی اسرائیل کے لیے خطرے کا الارم ہے۔ کیونکہ پہلی بار کسی فلم کے اندر اس طرح سے علامتی طور پر کسی پولیٹیکل ایشو کو ڈسکس کیا گیا ہے۔ اور اگر یہ سلسلہ مستقبل کے اندر چل نکلا تو باقی لوگوں کو بھی ہمت ملے گی اس طرح کی کہانیاں لکھنے کی اور ایک بار یہ ٹرینڈ سیٹ ہو گیا تو ہر جگہ پر آپ کو یہی پولیٹیکل ایشو ڈسکس ہوتے ہوئے نظر آئیں گے اور اسرائیل جیسے ظالم کو پوری دنیا کے اندر منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور اس فلم کا کریز اور اس کا بزنس بتا رہا ہے کہ نئی نوجوان نسل اسرائیل کے بارے میں کس طرح کے خیالات رکھتی ہے۔ فلم کے اندر سپر مین امریکی حکومت سے بھی مایوس ہو جاتا ہے جو کہ ظالم بوریویا کو سپورٹ کر رہا ہے نہتے اور کمزور لوگوں کو مارنے کے لیے اور حقیقت میں بھی بچہ بچہ یہ بات جانتا ہے کہ دراصل امریکہ ہی اسرائیل کو سپورٹ کر رہا ہے۔ غزا کے اندر تمام تباہی پھیلانے کا ذمہ دار وہ بھی برابر کا ہے۔ اب سپر مین کو امریکہ کے سامنے کھڑے ہونے پر اور مظلوم کا ساتھ دینے کی وجہ سے لیکس لوتھر کے حوالے کر کے قید کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ غیر ملکی یعنی امیگرینٹ ہے اور اس کے کوئی حقوق نہیں ہیں اور امریکہ اس کے بعد بوریویا کی حمایت کرتا رہتا ہے۔ فلم کی کہانی آخر میں یہ کہتی ہے کہ صرف سپر ہیروز ہی بچا سکتے ہیں حکومتیں نہیں۔ اور یہ بہت ہی گہرا میسج تھا کہ لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے خود باہر نکلنا ہوتا ہے۔ خود سپر ہیرو بننا پڑتا ہے۔ حکومتوں پر بھروسہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ 1980 کی فلم کے اندر سپر مین امریکی جھنڈا لے کر خلا کے اندر اڑتا ہے۔ لیکن اس فلم کے اندر امریکہ کو نا اہل اور خود غرض دکھایا گیا ہے۔ اب یہ فلم صرف اسرائیل کی مثالی تصویر کو نہیں توڑتی بلکہ امریکہ کی منافقت اور خود غرضی کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ اور بتاتی ہے کہ اسرائیل سے متعلق ہمدردی اور میڈیا پروپیگنڈا جو کہ اربوں ڈالر لگا کر میڈیا کو کنٹرول کر کے بنایا گیا تھا اب وہ فیل ہو رہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا اصول ہے کہ ظالم چاہے جتنا بھی طاقتور مرضی ہو جائے۔ لیکن آخر کار ایک ٹائم ایسا آ جاتا ہے کہ سچ چھپتا نہیں ہے بلکہ کسی نہ کسی طرح سے دنیا کے سامنے آ جاتا ہے۔ باقی آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا آپ اس کہانی پر میرے ساتھ ایگری کرتے ہیں یا پھر آپ کو لگتا ہے کہ یہ صرف ایک محض اتفاق ہو سکتا ہے؟ بس اس کو بڑھا چڑھا کر بتایا جا رہا ہے۔ اپنی قیمتی رائے کا اظہار کمنٹ سیکشن میں ضرور کیجیے گا۔۔ اللہ حافظ۔
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں